’زبانی مفاہمت پر نیٹو سپلائی جاری تھی‘

آخری وقت اشاعت:  پير 12 دسمبر 2011 ,‭ 12:43 GMT 17:43 PST

روزانہ چمن اور طورخم سے ساڑھے تین سو سے چار سو نیٹو سپلائی کے کنٹینر افغانستان جاتے ہی

پاکستان کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ امریکہ اور نیٹو سے ان کے لیے افغانستان امدادی سامان لے جانے کے بارے میں کوئی معاہدہ نہیں ہے اور گزشتہ دس برس سے زبانی مفاہمت کے تحت چمن اور طورخم کی سرحدوں کے ذریعے سامان کی ترسیل ہوتی رہی ہے۔

وزارت دفاع کے ایک سینیئر افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ افغانستان میں امریکہ کی اتحادی افواج اور نیٹو کے لیے جانے والی رسد پر کوئی ٹیکس عائد ہے اور نہ ہی اس سے پاکستانی بندرگاہ سے متعلق مختلف محصولات، تیل اور دیگر سامان کی سٹوریج کا معاوضہ لیا جاتا ہے۔

وزارتِ دفاع کے ایک اور فوجی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی جو مشترکہ اور متفقہ سفارشات تیار کر رہی ہے اس میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے لیے پاکستان سے جانے والے تیل پر بھی فی لیٹر ٹیکس لگایا جائے۔ کیونکہ ان کے بقول پاکستان میں فی لیٹر ڈیزل پر بیس روپے سے زائد ٹیکس نافذ ہے۔

’اب ہم نیٹو، امریکہ اور اتحادی افواج کے لیے جانے والے سامان پر عالمی قوانین اور پریکٹسز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ٹیکس لگائیں گے اور انہیں فراہم کی جانے والی سہولیات کے مد میں معاوضہ وصول کریں گے اور اس سے سرکاری خزانے کو سالانہ اربوں روپے کی آمدن ہوگی۔‘

وزرات دفاع

"اب ہم نیٹو، امریکہ اور اتحادی افواج کے لیے جانے والے سامان پر عالمی قوانین اور پریکٹسز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ٹیکس لگائیں گے اور انہیں فراہم کی جانے والی سہولیات کے مد میں معاوضہ وصول کریں گے اور اس سے سرکاری خزانے کو سالانہ اربوں روپے کی آمدن ہوگی"

وزارتِ دفاع کے سینیئر افسر نے ایک سوال کے جواب میں بی بی سی کو بتایا ماضی میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اور موجودہ حکومت کے دور میں کبھی کوئی امریکہ اور نیٹو کی رسد پر ٹیکس لینے کا معاملہ زیر بحث نہیں لایا اور دس برس تک یوں انہیں ایک لحاظ سے انہیں ’ٹیکس ہالیڈے‘حاصل رہا۔

تاہم انہوں نے بتایا کہ نیٹو، امریکہ اور اتحادی افواج کی رسد کے لیے جانے والے سامان اور ان کے قافلوں کی حفاظت کے لیے امریکہ، چمن اور طورخم سرحدوں کے آس پاس رہنے والے قبائل کے عمائدین کو نجی طور پر پیسے دیتے رہے ہیں لیکن حکومت کو ٹیکس نہیں دیا۔

’حال ہی میں جب نیٹو اور امریکہ کے لیے جانے والے قافلوں پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بعض شہروں میں حملے ہوئے تو فرنٹیئر کور کے دستوں نے انہیں سیکورٹی کی خدمات فراہم کیں لیکن اس مد میں کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔‘

ُادھر دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نیٹو اور امریکہ جانے والے سامان پر ٹیکس یا فراہم کی جانے والی سہولیات کے بارے میں کسی معاہدے کا انہیں کوئی علم نہیں ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر مواصلات ڈاکٹر ارباب عالمگیر نے چند روز قبل بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ نیٹو، امریکہ اور اتحادی افواج کے لیے افغانستان جانے والی ٹریفک کی وجہ سے پاکستان کی سڑکوں پر اضافی بوجھ پڑا اور دو سال پہلے مکمل کردہ جائزے کے مطابق پاکستان اس مد میں ایک ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرچکا ہے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق نیٹو، امریکہ اور اتحادی افواج کے لیے جانے والے ٹریفک کی وجہ سے پاکستان کی شاہراہوں کو ہر سال بیس سے پچیس ارب روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔ کیونکہ ان کے بقول روزانہ چمن اور طور خم سے ساڑھے تین سو سے چار سو کنٹینرز افغانستان جاتے ہیں۔

وفاقی وزیر نے بتایا تھا کہ حکومت پاکستان نے دفتر خارجہ کی معرفت نیٹو اور امریکہ سے یہ معاملہ باضابطہ طور پر اٹھایا ہے لیکن تاحال انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔

اسی بارے میں

متعلقہ عنوانات

bbc.co.uk navigation

BBC © 2011 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔