کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب مرد مجھے نازیبا تصاویر نہیں بھیجتے: خاتون گیمر

ایک سروے کے مطابق 28 فیصد خواتین گیمرز کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ معروف گیمر سنپی کا بھی ایسا ہی تجربہ ہے جنہیں آن لائن گیمز کھیلتے ہوئے آئے دن ہراسانی، نازیبا تصاویر، دھمکیوں اور جنسی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مقبول گیمر سنپی کا کہنا ہے کہ انہیں باقاعدگی سے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ ان کی گیمنگ کے کلپس ان کی اجازت کے بغیر پورن ہب پر اپ لوڈ کر دیئے جاتے ہیں۔ (سنپی انسٹاگرام اکاؤنٹ)

ہائی پروفائل گیمر سنپی کہتی ہیں کہ ایک دن بھی نہیں گزرتا جب کوئی شخص جسے وہ نہیں جانتی وہ اسے نازیبہ تصویر نہیں بھیجتا ہے یا پوچھتا ہے کہ کیا وہ بھیج سکتا ہے۔

اور وہ جو بدسلوکی وہ برداشت کرتی ہیں اس کی اکثر زبان پرتشدد ہوتی ہے۔ ’لوگوں نے مجھے آن لائن ہراساں کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر میں نے انہیں توجہ نہ دی تو وہ مجھے اور میرے خاندان کو قتل کر دیں گے۔‘

سنپی کو جس قسم کے جنسی استحصال اور خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے افسوس کی بات ہے کہ یہ کسی بھی طرح منفرد نہیں ہیں۔ گیمنگ میں خاتون معمول کے مطابق جنسی ہراسانی، بدسلوکی اور بعض اوقات مرد گیمرز کی جانب سے ریپ اور قتل کی گرافک دھمکیوں کا سامنا کرتی ہیں۔

دی انڈپینڈنٹ کے ساتھ خصوصی طور پر شیئر کی گئی تحقیق میں دیکھا گیا کہ گیمنگ کی انتہائی مردانہ غلبے والی دنیا میں بدسلوکی کا تجربہ اکثر سوشل میڈیا پر آگے بڑھ سکتا ہے یہاں تک کہ آف لائن پیچھا کرنا اور ہراساں کرنے میں بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔

ینگ گیمرز اینڈ گیمبلرز ایجوکیشن ٹرسٹ (وائی جی اے ایم) کی جانب سے کی جانے والی اس تحقیق میں تقریباً 35 فیصد خواتین نے بتایا کہ انہیں دیگر گیمرز کی جانب سے نامناسب مواد یا پیغامات بھیجے گئے ہیں۔ تقریباً 28 فیصد خواتین گیمرز کو ساتھی گیمرز نے جنسی طور پر ہراساں کیا ہے اور 40 فیصد نے آن لائن ملٹی پلیئر گیمز کھیلتے ہوئے گیمرز کی جانب سے زبانی بدتمیزی کا سامنا کیا ہے۔

10 میں سے تقریباً تین خواتین گیمرز نے کہا کہ انہیں ان کی صنف کی وجہ سے گیمز میں حصہ لینے سے خارج کردیا گیا ہے اور چیرٹی کی جانب سے سروے کیے گئے دو ہزار مرد اور خواتین گیمرز کی اکثریت نہیں سمجھتی کہ گیمنگ کے اندر اس طرح کے زہریلے رویے سے نمٹنے کے لیے مناسب کام کیا جا رہا ہے۔

مشہور گیمنگ سائٹ ٹوئچ پر سٹریم کرنے والی سنپی نے کہا کہ مرد گیمرز  ان کی شکل پر مسلسل تبصرہ کرتے ہیں جب وہ فورٹنائٹ یا کال آف ڈیوٹی جیسی گیمیں کھیل رہی ہوتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان پر ان کی نسل کے بارے میں تبصروں کی وجہ سے بھی حملے کیے جاتے ہیں۔

 

وہ مزید کہتی ہیں، ’مجھے مسلسل جنسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ کو اونلی فینز اکاؤنٹ بنانا چاہیے۔ وہ مردوں سے یہ نہیں کہتے۔ وہ کہتے ہیں، اوہ یہ بہت دلکش ہیں۔ میں ہمیشہ نظروں میں رہتی ہوں، میں کیسی دکھتی ہوں، میں ٹانگ کیسے رکھتی ہوں۔ میں بس ایسے جینے کی کوشش کر رہی ہوں کہ مجھے مسلسل یہ نہ بتایا جائے کہ مجھے پورن کرنی چاہیے۔‘

انہوں نے کہا: ’مجھے بتایا گیا ہے کہ میں کوئی بہت زیادہ جنسی چیز ہوں۔ میں نہ ٹھیک بیٹھتی ہوں اور نہ ہی صحیح کھڑی ہوتی ہوں۔‘

مڈلینڈز میں رہنے والی سنپی نے بتایا کہ انہیں باقاعدگی سے پتہ چلتا رہتا ہے کہ ان کی اجازت کے بغیر فحش ویب سائٹ پورن ہب پر ان کے گیمنگ کے بے ضرر کلپس اپ لوڈ کیے گئے ہیں۔

وہ یاد کرتی ہیں، ’میں نے ایک بلاگ کیا جہاں میں جم گئی اور ٹریڈ مل پر نینٹینڈو کھیل رہی تھی تاکہ ورزش کے دوران، گیمنگ سے صحت مند طرز زندگی کو فروغ دے سکوں۔ اس ویڈیو سے ایک حصہ نکال کر پورن ہب پر ڈال دیا گیا۔ مجھے ویب سائٹ سے رابطہ کرنا پڑا تب انہوں نے اسے وہاں سے ہٹا دیا۔ اب میرے پاس وہاں ایک رابطہ کار ہے جسے میں کہوں کہ اسے ہٹا دو اور ایسا مہینے میں ایک دو بار ضرور ہوتا ہے۔‘

سنپی، جن کی مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بڑی آن لائن فالوونگ ہے، نے کہا کہ ان پر مسلسل اعتراض کیے جانے کے علاوہ لوگ انہیں بتاتے ہیں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر ایک ’جعلی گیمر‘ ہیں اور وہ واقعی گیمز نہیں کھیل رہی ہیں۔

سنپی، جو کافی عرصے سے گیمنگ کر رہی ہیں اور اب اس سے روزی روٹی کماتی ہے، مزید بتاتی ہیں کہ ’وہ کہتے ہیں کہ میں مردوں کی توجہ کے لیے گیمز کھیل رہی ہوں۔ وہ کہتے ہیں: مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ لڑکی کھیل کھیلتی ہے۔ میں گیمنگ میں ایک اقلیت ہوں. میں ایک مخلوط نسل کی خاتون گیمر ہوں۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس ہفتے انہیں ایک شخص کی جانب سے پیغام موصول ہوا جس میں انہیں ایک ہزار پاونڈز کی پیشکش کی گئی تھی تاکہ وہ اپنی ایک برہنہ ویڈیو بھیج سکیں جبکہ کئی دیگر نے انہیں ان سے ملنے کے لیے رقم ادا کرنے کی پیشکش کی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سنپی کا مزید کہنا ہے کہ ’یا وہ کہتے ہیں کہ اگر میں انہیں مردانہ عضو کی تصاویر بھیجنے دوں گی تو وہ مجھے ایک ہزار پاونڈز دیں گے۔ میں کوئی ایسی شے نہیں ہوں جسے آپ خرید سکتے ہیں۔ میں اس کی بہت عادی ہوں، میں صرف یہ سوچتی ہوں: جو بھی ہو، یہ وہی ہے جو یہ ہے۔ میں اس ہراسانی کی وجہ سے گیمنگ کبھی نہیں چھوڑوں گی۔‘

ان کے بقول: ’میرے فالورز کی مثبت رائے کی وجہ سے میں ایسا کرتی ہوں۔‘ لیکن اس طرح کے آن لائن استحصال کے ہولناک نتائج کمپیوٹر یا موبائل سکرین سے بڑھ جاتے ہیں اور حقیقی دنیا کے خطرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں - سنپی نے ایک واقعہ بیان کیا جب ایک گیمر نے ان کا پیچھا کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کہاں رہتی ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں، ’ان وجوہات کی وجہ سے آن لائن ہونا بہت دباؤ کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ مجھے کبھی کبھی تھوڑا غیرمحفوظ ہونے کا احساس دیتا ہے۔ ہر وقت میں اپنے لباس پر سوال اٹھاتی ہوں۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی میں دباؤ محسوس کرتی ہوں۔ حال ہی میں ایک برانڈ نے مجھے بتایا کہ میں خطروں سے بھری ہوں۔ اگر آپ انسٹاگرام پر موجود میرے مواد کو دیکھیں تو یہ خطروں سے بھرا نہیں ہے۔‘

برازیل میں فروری میں خاتون گیمر 19 سالہ انگریڈ بوئنو دا سلوا کا قتل ہوا تھا جو مبینہ طور پر ایک مرد گیمر نے کیا تھا۔

خواتین گیمرز پر سالانہ سروے کرنے والی مارکیٹ ریسرچ کمپنی بریٹر نے دریافت کیا کہ 2018 سے 2020 کے درمیان اوسطاً 10 فیصد خواتین گیمرز کو ریپ کی دھمکیاں موصول ہوئیں۔

بلیک گرل گیمرز کی بانی جے این لوپیز دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ خواتین گیمرز کو آن لائن بہت زیادہ ’زہریلہ‘ ردعمل برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ جس میں لوگ ان پر ’نسل پرست اور جنس پرست جملے‘ کستے ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’مجھے این ورڈ کے ساتھ ای میلز ملتی ہیں، یا جہاں مجھے بندر، یا نسل پرست، یا ریس بیٹر یا گوریلا سے بہت زیادہ موازنہ کیا جاتا ہے۔ ایک ہلکی رنگت والی سیاہ فام عورت کے طور پر جو پتلی ہے، مجھے جسم کی بہت سی شکلوں میں منفیت کا احساس نہیں ہوتا۔ میں جانتی ہوں کہ زیادہ تر خواتین نے گیمنگ میں کسی نہ کسی قسم کی جنسی تاثرات یا جنسی تبصروں کا تجربہ کیا ہے۔‘

مس لوپیز، جنہوں نے 2015 میں مقبول گیمنگ کولیکٹو کی بنیاد رکھی تھی، نے کہا کہ مرد گیمرز نے انہیں بتایا تھا کہ ’خواتین کو باورچی خانے میں ہونا چاہیے‘ اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں سینڈوچ بنا کر دیں۔

گذشتہ موسم گرما میں گیمنگ انڈسٹری میں 70 سے زائد افراد جو زیادہ تر خواتین تھیں، ٹوئچ، ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے جنسی تفریق، صنفی بنیاد پر ہراساں کرنے اور جنسی حملے کے الزامات کے ساتھ عوام کے سامنے آئی تھیں۔

لندن میں رہنے والی 21 سالہ طالبہ مولی بارکر نے بتایا کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو مردوں کی بدسلوکی کا سامنا کرنے کے بعد انہوں نے برسوں سے آن لائن گیم نہیں کھیلی ہے۔

رائل ہولووے یونیورسٹی میں سائیکالوجی اینڈ کاگنیٹو اینڈ کلینیکل نیوروسائنس کا مطالعہ کرنے والی مس بارکر کا کہنا ہے کہ ’آن لائن ہونے کا فائدہ ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی مرد کسی کھیل میں کسی عورت کے ہاتھوں آؤٹ کلاس محسوس کرتا ہے تو اس کے ساتھ بدسلوکی کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ نچلی سے درمیانی سطح کے کھلاڑیوں کے ساتھ بدسلوکی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے ٹوئچ پر سٹریم کیا تو مردوں نے ان کی عریاں تصاویر خریدنے کی پیشکش کی اور جب انہوں نے ٹوئٹر پر گیمنگ پر رائے دی تو لوگوں نے ان سے کہا  کہ ’چپ رہو ورنہ میں آپ کو تکلیف پہنچاوں گا۔‘

وہ مزید کہتی ہیں، ’یہ صرف ویڈیو گیم پر رائے دینے کا ردعمل تھا۔ گیمنگ فرار کا ایک ذریعہ ہے۔ گیمنگ چیزوں کے بارے میں نہ سوچنے کے بارے میں ہے۔ لیکن یہ لوگوں کو گمنام رہ کر بدسلوکی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کو زہریلا پن اگلنے کے لیے ایک گمنام پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین